ایک ایسی غلط فہمی کا ازالہ جو بڑی ہستی کی طرف منسوب کی گئی اور جس کی کوئی حقیقت نہیں۔
ابو عبداللہ،کراچی
میرا سب سے پہلا تعارف ’’دو انمول خزانہ‘‘ سے ڈاکٹر عبدالحئی عارفی نوراللہ مرقدۂ کی جانب منسوب کتاب ’’مومن کا ہر لمحہ ربیع الاول ہے‘‘ شائع کردہ ادارہ بیت الکتب گلشن اقبال بلاک نمبر2 سے اب سے تقریباً 6 سال قبل ہوا‘ اس وقت سے الحمدللہ خزانہ نمبر1 میرا آج تک معمول ہے اس سے مجھے الحمدللہ بہت ہی روحانی فائدہ محسوس ہورہا ہے جس کی بنا پر انشاء اللہ معمول زندگی رہے گا ۔کچھ عرصہ بعد مزید کتب کے مطالعہ کے بعد یہ بات حیرت انگیز طورپر سامنے آئی کہ یہ کتاب ڈاکٹر عبدالحئی عارفی نوراللہ مرقدہ ٗکی ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ کتاب یعنی دو انمول خزانہ تالیف کردہ حضرت حکیم محمدطارق محمود مجذوبی چغتائی دامت برکاتہم کی ہے۔ میں نے پھر بیت الکتب کے مالک سے دو انمول خزانہ کے متعلق تحقیق کرنا چاہی یعنی یہ کہ جب یہ کتاب حضرت حکیم محمدطارق محمود مجذوبی چغتائی صاحب دامت برکاتہم کی ہے تو آپ نے ڈاکٹر عبدالحئی عارفی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف اس انمول خزانہ کی نسبت کرکے کیوں شائع کی ہے؟
جس کے جواب میں انہوں نے فرمایا کہ مجھے یہ ’’دو انمول خزانہ‘‘ کا عمل ڈاکٹر عبدالحمید صاحب جو کہ صاحب مکان ہیں صفہ سوویئراسکول کی عمارت کے۔ ان کی اہلیہ جو کہ حضرت ڈاکٹر عبدالحئی صاحب عارفی رحمۃ اللہ علیہ کی خاص تعلق والی ہیں انہوں نے مجھے یہ دیا ہے جب میں نے ان سے ان کا موبائل نمبر یا کوئی فون نمبر لینے کی درخواست کی تو انہوں نے فرمایا کہ میرے پاس ان کا نمبر نہیں ہے۔ پھر میں نے عارفی جیولرز کے مالک محترم ممتاز عارفی صاحب جو کہ ڈاکٹر عبدالحئی عارفی نوراللہ مرقدۂ کے صحبت یافتہ ہیں ان سے رابطہ کیا جن کی دکان حیدری کراچی میں ہے مگر اس دن وہ اپنی دکان پر کسی عذر کی بنا پر موجود نہیں تھے لیکن ان کے چھوٹے بھائی نے پرانا تعلق ہونے کی وجہ سے اپنے ذاتی فون سے میری ممتاز عارفی صاحب سے تفصیلی بات کروائی جس کے جواب میں ممتاز عارفی صاحب نے فرمایا حضرت کے معمولات میں ایسا کوئی عمل بھی میری نگاہ سے نہیں گزرا پھر میں نے ان سے ڈاکٹر عبدالحمید مرحوم کی اہلیہ جن کی طرف اس عمل (دوانمول خزانہ) کی نسبت بیت الکتب کے صاحب دکان نے کی تھی ان کا نمبر لینے کی درخواست کی مگر ان کے پاس بھی نمبرنہ ہونے کے سبب حاصل نہ ہوسکا۔ مگرممتاز عارفی صاحب نے بندہ کو حضرت ڈاکٹر عبدالحئی عارفی نوراللہ مرقدہٗ کے بڑے صاحبزادہ حضرت حسن صاحب مدظلہٗ کا نمبر کچھ دنوں کے بعد میرے مانگنے پر عنایت کردیا۔
پھر میں نے اسی دن یعنی اتوار کے دن عصر کے بعد انہیں کم از کم دس مرتبہ فون کیا مگر انہوں نے اپنے گھر میں اصلاحی مجلس ہونے کی وجہ سے کال وصول نہ کی چونکہ مجھے بالکل بھی اس بات کا دھیان نہ رہا کہ آج یعنی اتوار کے دن حضرت ڈاکٹر عبدالحئی عارفی رحمۃ اللہ علیہ کے گھر جو کہ بلاک ایف ناظم آباد کراچی میں واقع ہے‘ وہاں اصلاحی بیان ہوتا ہے ورنہ میں شاید اس قیمتی لمحہ میں حضرت کے بڑے صاحبزادہ محترم حضرت حسن صاحب مدظلہٗ کو ہرگز ہرگز فون کرنے کی گستاخی نہ کرتا۔بالآخر میں نے ہمت نہ ہاری اور میں اسی دن سرجانی ٹاؤن نارتھ کراچی سے ان کے گھر مغرب کی نماز راستہ میں ادا کرتا ہوا اپنے ایک دوست کے بھائی ممنون حسن صاحب جو کہ نارتھ ناظم آباد بلاک ڈی کے رہائشی ہیں‘ ان کے گھر گیا اور ان کیساتھ حضرت ڈاکٹر عبدالحئی عارفی رحمۃ اللہ علیہ کے گھر پہنچنے میں کامیاب ہوگیا وہ چونکہ حضرت ڈاکٹر صاحب کے گھر سے اچھی طرح واقف تھے ۔
پھر میں نےڈاکٹر عبدالحئی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بڑے صاحبزادہ حضرت حسن صاحب مدظلہٗ کے سامنے دو انمول خزانہ کی ساری معلومات رکھی تو انہوں نے انتہائی اطمینان سے میری گفتگو کو توجہ اور شفقت سے سنا اور پھر فرمایا ہمارے والد صاحب ڈاکٹر عبدالحئی عارفی رحمۃ اللہ علیہ کا ایسا کوئی بھی عمل ہماری معلومات کے مطابق ہرگز نہیں ہے پھر انہوں نے مزید ارشاد فرمایا آپ اگر مزید تحقیق کرنا چاہیں تو دارالعلوم کراچی کا ترجمان ’’ماہنامہ البلاغ‘‘ عارفی نمبر دارالعلوم کراچی کسی بھی مکتب سے خرید لیں اور اس میں سب سے پہلا مضمون میرا (یعنی حضرت حسن صاحب دامت برکاتہم) کا ہے جس میں انہوں نے اپنے والد ماجد حضرت ڈاکٹر عبدالحئی عارفی صاحب نوراللہ مرقدۂ کے تمام معمولات یومیہ اور حالات زندگی شائع کردئیے ہیں۔ آپ اس میں پڑھ سکتے ہیں کہ ایسا کوئی بھی عمل یعنی ’’دوانمول خزانہ‘‘ نامی ہرگز نہیں ملے گا۔ بقول حضرت حسن صاحب کہ جس کسی نے بھی ایسا کیا ہے یعنی ’’دوانمول خزانہ‘‘ کے عمل کو ہمارے والد حضرت ڈاکٹر عبدالحئی عارفی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف جھوٹی نسبت کی ہے اس نے محض اپنا کاروبار چمکانے کیلئے ایسا کیا ہے اس کےعلاوہ اور کوئی مقصد نہیں ہوسکتا۔
پھر بندہ نے ایک اور صاحب مولانا محب اللہ قاسمی دامت برکاتہم جوکہ خود بھی عالم دین ہیں اور خطیب اور عامل بھی ہیں ان کی عملیات کی کتاب جس کا نام ’’ترقی رزق و حل مشکلات‘‘ ہے اس میں بھی ’’دوانمول خزانہ‘‘ کو حضرت ڈاکٹر عبدالحئی عارفی رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت سے واضح لکھا ہوا پایا تو ان سے فون پر رابطہ کیا جس کے جواب انہوں نے بھی یہی ارشاد فرمایا کہ میں نے یہ عمل ڈاکٹر عبدالحئی عارفی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب’’ مومن کا ہر لمحہ ربیع الاول‘‘ ہے سے لیا ہے۔ پھر میں نے انہیں بتایا کہ یہ عمل تو حضرت حکیم محمدطارق محمود مجذوبی چغتائی دامت برکاتہم العالیہ کا ہے تو وہ یہ سن کر حیران ہوگئے پھر میں نے انہیں مزید چند کتب خانوں جن میں سرفہرست مکتب خدیجۃ الکبریٰ اردو بازار کراچی میں ہے جو کہ حکیم اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ مجاز حضرت مولانا شفیق بستوی صاحب دامت برکاتہم کا ہے‘ اس ادارہ کا حوالہ دیا کہ انہوں نے بھی ’’دو انمول خزانہ‘‘ نامی کتابچہ شائع کیا ہے مگر مؤلف کا نام حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی دامت برکاتہم العالیہ ہی شائع کیا ہے۔ پھر انہوں نے احقر سے معذرت کی اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا۔ آخر میں میری ایسے تمام اداروں کے ذمہ داروں سے درخواست ہے کہ خدارا صرف اپنے کاروبار کو چمکانے کیلئے اہل اللہ کی طرف جھوٹی نسبت نہ کریں کیونکہ اس سے مخلوق خدا کو دھوکہ دینےاور اہل اللہ کی طرف جھوٹی نسبت کرکے کسی بھی آزمودہ عمل کو شائع کرنا بدترین خیانت‘ علمی سرقہ اور گناہ کبیرہ ہے لہٰذا جو ہوگیا اس سے سچی و پکی توبہ کریں اور اگر پسند فرمائیں تو اپنی آئندہ ’’دوانمول خزانہ‘‘ نامی کتابچہ شائع کرتے ہوئے ’’اعتذار‘‘ نام عنوان کے ذیل میں عوام سے معافی مانگیں اگرچہ یہ عمل آپ سے غلط فہمی کی ہی بنا پر کیوں نہ سرزد ہوا ہو‘ معاملہ اس فانی و حقیر دنیا کا نہیں ہے بلکہ قبرو آخرت کا ہے‘ کل ہم سب نے اللہ رب العزت کے دربار میں پیش ہوکر اپنے ایک ایک عمل کا حساب دینا ہے اللہ پاک آخرت کی رسوائی سے ہم سب کی مکمل حفاظت محض اپنے فضل و احسان سے فرمادیں تو یہ ان کا ہم پر لطف و کرم ہوگا ورنہ ہم اس لائق نہیں ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں